اسلامی تصوف قرآن وسنت اور اقوالِ صوفیاء کی روشنی میں ایک جائزہ
Sufism is a tradition of enlightenment that carries the essential truth forward through time. Tradition, however, must be conceived in a vital and dynamic sense. Its expression must not remain limited to the religious and cultural forms of the past. The truth of Sufism requires reformulation and fresh expression in every age. Sufism, as we know it, developed within the cultural matrix of Islam. The Islamic revelation presented itself as the expression of the essential message brought to humanity by the prophets of all ages.The Qur’an recognizes the validity of thousands of messengers who have come to awaken us from our selfish egoism and remind us of our spiritual nature. The Qur’an confirmed the validity of past revelations, while asserting that the original message was often distorted over the course of time.
Key Words: Sufism,Enlightenment,Islamic Revelation,Quran, Spiritual
تصوف کی حیثیت مقبولیت کے باوجود ہر دور میں متنازع رہی ہے۔ ایک گروہ جہاں تصوف کو اسلام کی روح سے تعبیر کرتا ہے، وہیں دوسرا اسے غیر اسلامی رہبانیت قرار دے کر مستر د کر دیتا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے درمیان کا متوازن راستہ اختیار کیا۔
یہ طبقہ غیر اسلامی تصوف کا منکر اور اسلامی تصوف کا قائل ہے ۔ تاہم علمی لحاظ سے یہ تقسیم بجائے خود نا قابل قبول ہے۔ مسئلہ کو سمجھنے سمجھانے کے لئے آسان اور محفوظ طریقہ یہ تھا کہ تصوف کو قرآن وسنت اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں جانچنے کی کوشش کی جاتی اور خذ ما صفادع ما کدر کے تحت جو چیز قرآن و سنت کے میزان پر پوری اترتی اسے قبول کر لیا جاتا اور جو چیز مسترد ہوتی ، اسے ترک کر دیا جاتا۔
لیکن بدقسمتی سے ایسی کاوشیں بہت کم ہوئی ہیں پیش نظر مقالہ اسی خلا کو پر کرنے کی ایک ادنی کوشش ہے۔ اس کا اصل مقصد لغوی، اصطلاحی اور شریعت کی روشنی میں تصوف کا جائزہ پیش کرنا ہے۔
اشتقاق
صوفی اور تصوف کے لغوی اشتقاق کے بارے محققین کے یہاں ہر دور میں اختلاف رہا ہے۔ قرآن اور صحاح ستہ میں یہ لفظ موجود نہیں ہے۔ عربی زبان کی قدیم لغات نیز جاہلی ادب کا وسیع ذخیرہ اس سے خالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے تصوف اس کی اصل کے متعلق مختلف الرائے ہیں۔ عہد جاہلیت میں صوفی کی اصل تلاش کرنے کی پہلی کوشش حافظ محمد بن طاہر المقدسی (۵۰۷-۴۴۸ھ) کی بیان کردہ ایک روایت میں کی گئی ہے ۔ ان کے بیان کے مطابق کوفہ کے ایک محدث ولید بن قاسم (م ۸۳ھ) سے صوفی کی نسبت کے بارے سوال کیا گیا۔ تو انہوں نے جواب دیا:
1قوم في الجاهلية يقال لهم صوفه انقطعوالی الله عز وجل و قطنوا الكعبة فن تشبه بهم فهم الصوفيه
جاہلیت میں صوفہ کے نام سے ایک قوم تھی جو اللہ تعالیٰ کے لیے یکسو ہوئی اور جس نے کعبہ کی خدمت کیلئے خود کو وقف کیا تھا۔ تو جن لوگوں نے ان سے مشاہیت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے
:تصوف کی لغوی تحقیق
تصوف کے بارے اختلاف ہے کہ یہ لفظ دراصل کسی لفظ سے ماخوذ ہے۔ بعض نے کہا کہ لفظ ” تصوف صفاء سے بنا ہے۔ جس کا مطلب ہے صفائی اور اُجلا ہونا ۔ جس طرح کہ السیوعی نے لکھا
2صَفَا يَصْفُوصَفْوَارٍ صَفَاى وصفوا
“صاف ہونا”
مزید لکھا ہے: صَفًّى تَصْفِيَةُ الشي3 کسی چیز کو عمدہ اور صاف کرنا ” ۔
لفظ تصوف کی اصل کے بارے دوسرا اقول یہ ہے کہ یہ لفظ الصفو“ سے ماخوذ ہے۔ جو کہ مصدر ہے۔ اس بارے المنجد میں ہے : 4الصَّفْو والصفوَةُ والصِّفْوَةُ وَالصَّفْوَةَ مِنْ كُلِّ شَيْ یعنی خالص اور عمدہ چیز
تصوف کی لغوی تحقیق کے بارے ایک قول یہ ہے کہ یہ لفظ “صف“ سے بنا ہے اس بارے ابوالقاسم القشیری نے کہا : انه مشتق من الصف فكانها في الصف الاول بقلو بهم من حيث المحاضرة من الله تعالى5
کہ یہ صف سے مشتق ہے گویا کہ صوفیاء کے دل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کے اعتبار سے پہلی صف میں ہوتے ہیں۔
:امام ابوالقاسم قشیری کا اپنا نقطہ نظریہ ہے
6ولكن اللغة لا تقتضى هذه النسبة الى الصف
لغت کے اعتبار سے اس کا اسم صوفی نہیں آتا ۔
تو مطلب یہ ہے کہ یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ تصوف ”صف“ سے ماخوذ ہے کیونکہ اس طرح اس کا اسم صفی بنتا ہے بجائے صوفی بننے کے۔ تصوف کی لغوی بحث میں ایک قول یہ ہے کہ یہ لفظ صفہ سے بنا ہے کہ حضور اکرم سنی یا الی یوم کے صحابہ رضی اللہ عنہم مسجد نبوی میں ایک چبوترے میں رہ کر تعلیم پاتے تھے اور تزکیہ نفس کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ لیکن اگر اسی پر اعتماد کیا جائے تو اس کا اسم بھی صوفی نہیں ہوتا بلکہ اس کا اسم صفی بتا ہے۔ لہذا یہ بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ تصوف کی لغوی تعریف کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ لفظ ”صوف“ سے بنا ہے۔ صوف اُون کو کہا جاتا ہے۔ دوسرے اقوال سے بہتر قول صوف والا معلوم ہوتا ہے۔ اس بارے پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:
قول راجح جس پر اکثر صوفیہ کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ ”صوف“ سے مشتق ہے، چونکہ اکثرصوفیہ، صوف (اون) کا لباس پہنتے تھے۔ اس 7لئے لوگ انہیں صوفی کہنے لگے ۔
تصوف کا معنی لغت میں اسطرح ہے:
(۱)صوفیوں کا عقیدہ1 (۲) علم معرفت (۳) دل سے خواہشوں کو دور کر کے خدا کی طرف دھیان لگانا (۴) تزکیہ نفس کا طریقہ 8(۵) پشمینہ پہننا
المورد الوسیط میں ہے۔ صوف شَعْرُ الْغَنَم Wool, Fleece
- المقدسی، محمد بن طاہر، صفوة التصوف تعلیق احمد شر باصی، دار التالیف مصر ↩︎
- الیسوعی، لوئس معلوف: المنجد ، مترجم : خان یوسفی، (کراچی: دارالاشاعت)، ۱۹۹۴ء، ↩︎
- ایضاً ↩︎
- ایضاً ↩︎
- القشیری، عبدالکریم هوازن، ابوالقاسم، رسالہ القشیریہ مع حاشیة العروسی ، (دمشق: جامع الدرویشیہ ) ہس ن ۴/۳ ↩︎
- ایضاً ↩︎
- یوسف سلیم چشتی، پروفیسر: تاریخ تصوف ،(لاہور: دارالکتاب) صفحہ ۹۹ ↩︎
- فیروز الدین، الحاج مولوی: فیروز اللغات، لاہور : فیروز سنز پس ن ، تحت مادہ: تصوف ↩︎