
حافظ محمد عابد نعمان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر کلیہ عربی و علومِ اسلامیہ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد
ڈاکٹر احمد رضا
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ فکر اسلامی تاریخ و ثقافت، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد
ABSTRACT
Islam prefers communication among all human beings on the basis of humanity, brotherhood, mutual sympathy, justice, equality, peace and security, despite differences of religions and encourages the adoption of various aspects of social relations. The comprehensive policy in Islam is to declare full rights to non-Muslims and hence people subscribing to other religions were assigned full civic rights by the teaching of Quran and though the application of Prophet Muhammad (Peace be upon him).In Quran there are several primary rights for non-muslims which can be found in international human rights law. In this article, the teaching of quran about non-muslims are presented in research style explaining the Quranic principles and rules of social relations with non-muslims, so that harmony, peace and respect can be promoted in society.
Key word:Quranic Principles, Non-Muslims, Society, Minorities.
:موضوع کا تعارف
دینِ اسلام جملہ انسانوں کے درمیان ادیان و مذاہب کے اختلاف کے باوجودانسانیت، اخوت، باہمی ہمدردی، عدل و مساوات اور امن و سلامتی کی بنیادوں پر ربط و تعلق کو پسند کرتا ہے، اور معاشرتی روابط کے متعدد پہلوؤں کو اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔اسلام میں عمومی حکمتِ عملی یہ ہے کہ غیر مسلموں کو مکمل حقوق کی ضمانت دی جائے اور اسی وجہ سے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو قرآنی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کے اسوہ کے مطابق مکمل شہری حقوق دیئے جائیں۔اسلام میں غیرمسلموں کے ایسے بنیادی حقوق موجود ہیں جوآج انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون میں بھی درج کیے گئے ہیں۔ اس مقالہ میں قرآنی تعلیمات اور غیر مسلموں کے ساتھ معاشرتی تعلقات کو تحقیقی اسلوب میں پیش کیا گیا ہےتاکہ معاشرے میں،ہم آہنگی، امن و آشتی اور عزت کو فروغ دیا جا سکے۔
:اقلیات سے تعلقات کے قرآنی روابط
معاشرت سے مراد دنیا میں رہنے سہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤاور سلوک کرنے کے اصول ہیں ۔ان میں سے بعض کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے اور بعض کا تعلق اجتماعی زندگی سے جبکہ بعض کا تعلق دونوں سے ہے ۔اسلام میں معاشرت کی تعلیم بے مثال ہے۔اس سے جہاں ایک مسلمان کو قربِ خداوندی نصیب ہوتا ہےوہاں معاشرے کاہرہر فردبھی راحت اور سکون میں زندگی بسر کرتا ہے۔اسلام ایک ہمہ گیر اور آفاقی مذہب ہے۔ اسلام فطرت اور انسانیت کا مذہب ہے جس میں نہ علاقائیت کا حصار ہے اور نہ سلطنت کی تحریر، نہ قومیت کی و با ہے نہ نسل پرستی کا مرض ۔اسلام احترام انسانیت کا قائل ہےاور انسانیت کی بنیاد پر بنی نوع انسان کے تحفظ و بقاء کی پر زور تائید کرتا ہے۔قرآن کی سورۃ الحج میں اس تصور کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے کہ معاشرہ کیسا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
1اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ
(بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لیے سب کاموں کا انجام)
اس قرآنی تصور سے ایک ایسا معاشرہ بنانے کی جانب راہ کھلتی ہے کہ جہاںمعاشرے کے بنیادی تصور کے مطابق تمام افراد کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر ہوں اور ذہنی آسودگی بھی حاصل ہو اور کسی بھی انسانی معاشرے کو اس وقت تک ایک اچھا معاشرہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب تک اس کے ہر فرد مساوی انسان نا سمجھا جائےاور ایک کمزور کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہوں جو ایک طاقتور کے پاس ہوں اسلام کی پوری تاریخ انسانیت کے احترام اور اس کے حقوق کی رعایت اور انسانی اقدار کی حفاظت سے معمور ہے اولاد آدم کی تکریم و تعظیم اور احترام انسانیت کے حوالے سے ارشادات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔غیر مسلموں سے تعلقات کے حوالے سےقرآن مجید کی درج ذیل آیت دستوری حیثیت رکھتی ہیں ، جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ربط و تعلق کے بہت سے حساس گوشوں کو واضح کرتی ہیں ، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
لاَ یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ2
(اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو بےشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں ۔ اللہ تمہیں انہی سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے یا تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر مدد کی کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ستمگار ہیں ۔)
مراد یہ ہے کہ تمام انسانوں کے ساتھ عدل و انصاف کرنا، مسلمانوں کا مطلوب رویہ ہے، خواہ وہ کفار ہوں یا مشرکین، یعنی کفر و شرک ترک تعلق کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ظالمانہ رویہ اور عداوت کی وجہ سے، دوستی اور خفیہ تعلقات کی ممانعت ہے، وہ کفار جو مسلمانوں جو مسلمانوں کے ساتھ سرگرم ظلم و عداوت نہیں ہیں ان کے ساتھ نہ یہ کہ صرف عدل و انصاف کا حکم دیا جارہا ہے بلکہ اس کے علاوہ ان کے ساتھ خیر خواہی، ہمدردی اور احسان کا معاملہ کرنے کی ترغیب بھی ہےاور جو کفار مسلمانوں کی مخالفت اور شدید عداوت کے درپے ہیں ، ان کے ساتھ صرف دوستی اور رازدارانہ معاملہ رکھنے کی ممانعت کی ہے، عدل و انصاف کی ہر گز ممانعت نہیں ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’اس آیت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس میں حصر ہے، اس کا زور ’’أن تولوا‘‘ پر ہے، یعنی ممنوع جو چیز ہے وہ ’’تولی‘‘ یعنی ان کفار کو دوست اور کارساز بنانا ہے نہ کہ ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنا ہے، رہا عدل و قسط کا معاملہ تو اس کی بنیاد قانون، معاہدے اور معروف پر ہوتی ہے، اس میں کافر و مومن دوست و دشمن کے امتیاز کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا، قانون اور معاہدے کا جو تقاضا ہو وہ بہرحال پورا کرنا ہوگا اس سے بحث نہیں کہ معاملہ دوست کا ہے یا دشمن کا۔3‘‘
:4علامہ غلام رسول سعیدی اسی آیت کے تحت اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ذمی کافروں اور بد عقیدہ لوگوں کے ساتھ معاشرتی برتاؤ کرنا،خرید و فروخت، قرض کا لین دین،بیمار پرسی اور تعزیت وغیرہ کرنا جائز ہے البتہ مرتدین سے کسی قسم کا کوئی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے
:اسلامی معاشرہ میں غیر مسلموں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان سے ہوتا ہے
ألا من ظلم معاہدا أو انتقصہ،أو کلفہ فوق طاقتہ أو أخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس فأنا حجیجہ یوم القیمةا5
( خبردار ! جس کسی نے کسی معاہد(غیر مسلم) پر ظلم کیا یا اس کا حق غضب کیا یا اس کو اسکی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اسکی طرف سے ( مسلمان کے خلاف ) جھگڑوں گا۔)
یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون ہے جو حضور اکرم ﷺ کے دور مبارک میں اسلامی مملکت میں جاری تھا۔ جس پر بعد میں بھی عمل درآمد ہوتا رہا۔اب بھی یہ اسلامی دستور مملکت کا حصہ ہے ۔
:اقلیات سے معاشرتی تعلقات کے قرآنی اصول
رواداری:1
رواداری فارسی زبان کا لفظ ہے جو دو لفظوں “روا” اور “داری” سے مرکب ہے۔روا کا مطلب ہے جائز،مناسب جبکہ داری کا مطلب ہے ملحوظِ خاطر رکھنا۔رواداری اور ہم آہنگی مترادف الفاظ ہیں۔انگریزی زبان میں اسے(condescending)اور(Tolerance)بھی کہتے ہیں۔6
مولانا مودودی رواداری کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اپنے مشہور زمانہ تصنیف تفہیمات میں لکھتے ہیں:
“رواداری” کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ، ان کو ہم برداشت کریں ، ان کے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو ، اور انہیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔اس قسم کے تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے ، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں ، اور خود ایک دستور العمل کے پیرو ہوتے ہوئے دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ : آپ سب حضرات برحق ہیں ، تو اس منافقانہ اظہارِ رائے کو کسی طرح “رواداری” سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہئے۔7
اسلام کے نزدیک ساری مخلوق اللہ کی ایک کنبہ ہے اورسب کے ساتھ بھلائی کا حکم ہے:
- سورۃ الحج 41:23 ↩︎
- سورۃ الممتحنہ9:40-8 ↩︎
- اصلاحی،امین احسن، تدبر قرآن، مکتبہ جدیدپریس، لاہو، ۱۹۷۹ء، ج7، ص:335 ↩︎
- سعیدی،علامہ غلام رسول،تبیان القرآن،فرید بک سٹال ،لاہور،ج2،ص108 ↩︎
- ابوداؤد،، سلیمان بن اشعث سجستانی،سنن ابوداؤد، کتاب الخراج والفیئ والامارۃ ،باب فی تعشیر اھل الذمۃ اذا ختلفو بالتجارات،المکتبۃ العصریہ،بیروت،رقم الحدیث :3052 ↩︎
- Kitabistan New Millennium Dictionary, B.A.Qureshi,Kitabistan Publishing co., P347) ↩︎
- سید مودوی،ابوالاعلیٰ، تفہیمات ،اسلامک پبلی کیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ،ج1،ص109-110 ↩︎